بنگلہ دیش میں پور امن احتجاج کرنے والے کالج یونیورسٹی کے طلبہ یوتھ پر بنگلہ دیش کی ہٹلر وزیراعظم شیخ حسینہ نے ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے نوجوانوں کو فوج کے ہاتھوں قتل کروانا اور اپنی حکومت کو بچانے کے لیے کرفیو نافظ کرنا شیخ حسینہ کا خوفناک کارنامہ ہے . بنگلہ دیش پر ایک عرصے سے قبضہ کر کہ فوجی غنڈہ گردی کے دم پر حکومت کرنے والی وزیراعظم شیخ حسینہ اپنی ہی قوم کو قتل کروانے میں ہٹلر سے بھی دو قدم آگئے نکل گئی
بنگلہ دیش میں کرفیو: فوج بلانے کے انتہائی اقدام کی ضرورت کیوں پڑی؟
بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکمران سیاسی جماعت کے کارکنوں کے درمیان ہونے والی جھڑپیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔
یہ بنگلہ دیش کی تاریخ کے بدترین مظاہرے ہیں جن میں اتنے کم عرصے میں ایک سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس ملک میں سیاسی حالات پر قابو پانے کے لیے کرفیو لگانا یا پرتشدد مظاہرے کوئی نئی بات نہیں۔ جب جب تشدد بڑے پیمانے پر پھیلتا ہے تب تب حکومت کرفیو کو آخری حربہ تصور کرتی آئی ہے۔
ملک میں آخری کرفیو 2007 میں نگراں حکومت کے دورِ میں لگایا گیا تھا اور اس وقت بھی وہ بھی طلبہ کے احتجاج پر قابو پانے کے لیے تھا
ملک بھر میں جاری حالیہ مظاہرے مزید شدت اختیار کر گئے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔
مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پہلے دن صرف پولیس کو تعینات کیا گیا تھا لیکن ایک موقع پر بارڈر گارڈ فورس بی جی بی کو بھی ان کی مدد کے لیے بلایا گیا۔ اس کے باوجود حالات قابو میں نہیں آ سکے اور اب کرفیو لگا کر فوج کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
حکمران جماعت عوامی لیگ کے جنرل سکریٹری عبیدالقادر کے مطابق ’یہ یقینی طور پر کرفیو ہے جس میں قواعد پر عمل کیا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔‘
ڈھاکہ میں 14 جماعتوں کے اجلاس کے بعد کرفیو نافذ کرنے اور فوج کی تعیناتی کے فیصلے کے بارے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’مختلف مقامات پر حملے کئے گئے ہیں اور اہم ریاستی ڈھانچوں کو تباہ کر دیا گیا۔‘
ڈھاکہ کی فضا میں ہیلی کاپٹروں سے آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے
کوٹہ مخالف تحریک زور پکڑتی جا رہی ہے۔ سیکورٹی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جب تشدد کچھ جگہوں تک محدود ہو جائے تو پولیس کے لیے حالات پر قابو پانا ممکن ہوتا ہے لیکن جب یہ تنازع مختلف علاقوں میں پھیل جائے تو پولیس کے لیے اس سے نمٹنا مشکل ہو سکتا ہے۔
سابق آئی جی پی اے کے ایم شاہد الحق کا کہنا ہے کہ ’کون سی جگہ ہے جہاں تشدد نہیں ہو رہا؟ پولیس پورے شہر میں مظاہرین پر کیسے قابو پا سکتی ہے؟ اتنی پولیس کہاں سے لائیں؟ پولیس کی تعداد محدود ہے۔‘
جمعہ کو ڈھاکہ کی فضا میں ہیلی کاپٹر مسلسل چکر لگاتے رہے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ جہاں مظاہرے زیادہ شدید تھے ان علاقوں میں ہیلی کاپٹروں سے آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے۔
بریگیڈیئر سخاوت حسین اس واقعے کو غیر معمولی قرار دیتے ہیں۔
وہ پوچھتے ہیں کہ ’ہیلی کاپٹر سے آنسو گیس کے شیل داغے گئے۔ کیا یہ عام بات ہے؟ جب حکومت کو دستیاب تمام وسائل کے باوجود بھی حالات قابو میں نہ آئے تو کرفیو لگا دیا گیا اور فوج کو سڑکوں پر لے آئے
بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہرے: ان والدین کا دکھ جنھوں نے اپنی اکلوتی اولاد کھو دی
میں اپنے بیٹے کے لیے دلہن ڈھونڈنے گیا تھا، واپس آیا تو پتا چلا کہ بیٹا ہی زندہ نہیں رہا۔۔۔‘
یہ الفاظ کہتے ہوئے ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والے عبدالرزاق کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔
عبدالرزاق کے اکلوتے بیٹے حسیب اقبال ان 130 سے زیادہ افراد میں سے ایک تھے جو بنگلہ دیش میں گذشتہ ہفتے کوٹہ اصلاحات تحریک کے دوران ہونے والے پُرتشدد مظاہروں میں مارے گئے۔
بنگلہ دیش میں ہزاروں طلبہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف کئی ہفتوں سے احتجاج کر رہے ہیں اور اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور حکومت کے حامیوں کی ان طلبا کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں۔
پرتشدد مظاہروں کے بعد سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم میں تبدیلی کا حکم دیا ہے جس کے مطابق ’1971 کی جنگ میں لڑنے والے فوجیوں کے اہلِ خانہ کو ملازمتوں کا اب صرف پانچ فیصد حصہ ملے گا‘ تاہم مظاہرین نے مارے جانے والے طلبہ کو انصاف ملنے تک ملک گیر مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
ان جھڑپوں میں اب تک کم از کم 133 افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جن میں سے اکثریت حسیب جیسے نوجوانوں ، طالب علموں اور کارکنوں کی ہے۔
27 سالہ حسیب اقبال ایک پرائیویٹ کمپنی میں نوکری کرتے تھے۔ ان کے اہلخانہ کے مطابق وہ گذشتہ جمعہ کی دوپہر وہ ڈھاکہ کے علاقے میرپور میں واقع اپنی رہائش گاہ سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے باہر نکلے تھے۔
حسیب کے ضعیف والد نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا ’ہمیں ایک ساتھ نماز کے لیے جانا تھا۔ لیکن چونکہ مجھے تھوڑی دیر ہو رہی تھی اس لیے وہ اکیلا ہی مسجد کے لیے نکل پڑا۔