جنرل دویدی کی تقرری فوج کے سربراہ کے انتخاب کے معمول کے طریقہ کار کی پیروی کرتی ہے جس کے تحت سنیارٹی کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اس سے قبل ماضی قریب میں مودی حکومت پر الزام لگتا رہا ہے کہ سنیارٹی کے اصول کو آرمی چیف کی تعیناتی کے عمل میں نظرانداز کیا گیا۔
مثال کے طور پر 2016 میں مودی حکومت نے وی کے سنگھ کو آرمی چیف مقرر کرنے کے لیے ان سے سینئر دو جنرلوں، لیفٹیننٹ جنرل پروین بخشی اور لیفٹیننٹ جنرل پی ایم ہارز، کو نظرانداز کیا تھا۔
واضح رہے کہ انڈیا میں حکومت کو آرمی کے تین سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز میں سے آرمی چیف کا انتخاب کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ انڈیا میں آرمی چیف کی تعیناتی تین سال کے لیے ہوتی ہے۔
جنرل دویدی کی تقرری پر تبصرہ کرتے ہوئے انڈین دفاعی مبصر پروین ساہنی نے کہا کہ ’یہ جنرل منوج پانڈے کی سروس میں دی گئی توسیع پر سوالات کو ختم کرتا ہے۔‘
انھوں نے سماجی رابطوں کی سائٹ ایکس پر لکھا کہ ’اچھا ہے کہ ایک نیا آرمی چیف آئے گا۔ اس سے اس بات پر تشویش ختم ہوتی ہے کہ انتخابی مہم کے دوران جنرل پانڈے کو ایک ماہ کی توسیع کیوں دی گئی تھی۔‘
انھوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جنرل پانڈے کی سروس میں توسیع غیر معمولی تھی اور کہا کہ اس کی وجہ سے ’فوج کے اس کے متعین کردار سے باہر کی چیزوں کے لیے استعمال کو مسترد نہیں جا سکتا تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’آگے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نئے سربراہ کی ترجیحات کیا ہوں گی۔ ہم پہلے سے ہی جانتے ہیں: وہ پہلے جیسے ہی ہوں گے۔‘